ضیاءالامت حضرت پیر محمد کرم شاہ آلازہری؛ ہمہ جہت عظیم شخصیت
ڈاکٹر سردار محمد طاہر تبسم
بھیرہ شریف بہت بڑی تاریخ کا حامل شہر ہے اس کی تاریخ میں دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کی اہمیت عالمی طور پر مسلمہ اور مستنداہمیت کی حامل ہے جہاں نہ صرف دینی تعلیم و تربیت کا اعلی اہتمام ہے بلکہ روحانی بالیدگی اور معرفت و تصوف کے علوم و رموز
کا زیادہ شہرہ ہے اور کئی پشتوں سے یہاں علم، حلم، شرافت، رواداری اور روحانیت کا سبق پڑھایا جاتا ہے اور اس خانقاُہ سے جو سیراب ہو کےنکلا وہ دین و دنیا کے علوم و فنون کے ساتھ ساتھ علم معرفت و فقر میں بھی یکتا ہو گیا۔
دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کی بنیاُد حضرت غازی پیر محمد شاہ رحمتہ علیہ نے 1925 میں رکھی اور مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے جماعت جنداللہ قائم کی جس نے اس دور میں احیاُاسلام، معاشی بدحالی اور معاشرے میں غیر شرعی رسوم اور بے جا اسراف کے خلاف علم بلند کیا-حضرت پیر محمد شاہ نے کشمیر کے جہاد میں کئی ماہ تک عملی شرکت فرمائی۔
ان کے عظیم فرزند اور نباض عصر حضرت پیر محمد کرم شاہ نے اس مشن کو ساری زندگی اپنی جان سے عزیز رکھا انہوں نے دینی و دنیاوی اعلی تعلیم کے لئے مراد آباد (انڈیا) اور جامعہ الازہر (مصر) کے سفر کئے اور دنیا بھرکےطلبہ میں ایم اے قانون اسلامی میں نمایاں پوزیشن حاصل کی۔اور 1954 میں واپس بھیرہ شریف تشریف لائے انہیں حکومت نے بڑے عہدوں کی پیشکشیں کیں لیکن انہوں نے اپنے اسلاف کے اہم اور مقدس مشن ہی کو اپنایا اور دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کی نشاہ ثانیہ کا آغاز کیا اور ایسی حکمت عملی اور نصاب ترتیب دیا کہ اس پر عالمی ادارے رشک کرتے ہیں آپ نے بچیوں کے لئے بھی غوثیہ گرلز کالج قائم کیا انکی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔
ختم نبوت اور نفاذ نظام مصصطفی کی تحریکوں میں جاندار کردار ادا کیا یہی نہیں بلکہ وہ جج سپریم کورٹ شریعت بنچ بھی رہے-
حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہری نے تحقیق و تصنیف کے شعبہ میں بے مثل خدمات انجام دیں قرآن مجید کا ترجمعہ جمال قرآن، تفسیر ضیاُالقران، سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرضیاُالنبی اور درجنوں تصانیف آپ کی فکر اور علم کی شاہکار ہیں اور ماہنامہ ضیاُئےحرم کے ادارئیے سر دلبراں اب بھی قوم کی رہنمائی کر رئیے ہیں۔
آپ کی ساری زندگی درس و تدریس میں گزری لیکن سیاسی، مذہبی، علمی و معاشرتی جدوجہد میں پیچھے نہیں رئیے بیرون ممالک تبلیغی،روحانی اور علمی دورے بھی کئے اور کئی عالمی اداروں اور کانفرنسز میں پاکستان کی بھرپور نمائندگی کرتے رہئے آپ کی ساری زندگی علم کی جستجو اور عمل کی تصویر رہئی وہ ایک عظیم مفکر، مدبرسیاستدان،مفسرقران، نامورعالم دین، مذہبی سکالر اور عظیم روحانی پیشوا کے طور پر مقبول رہئیں گے انکی ہمدردی، اخلاص،جانبازی، تدبر اور عجزو انکساری کا ہر کوئی گواہ ہے-
آپ جمیعت علمائے پاکستان کے سنئر نائب صدر، مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چئرمین،اور کئی اہم عالمی و قومی اداروں کے رکن اور ٹرسٹی رئیے۔ انہیں مذہبی و اسلامی خدمات پر حکومت مصر کی طرف سے نوط الامتیاز اور حکومت پاکستان کی طرف سے ستارہ امتیاز کے اعزازات سے نوازا گیا۔
آپ روحانیت اور فقر و معرفت میں بھی عظیم مقام پر فائز تھے اتنی اہم ذمہ داریوں کے باوجود آپ نے عبادات ریاضت وظائف میں کوئی کمی نہیں آنے دی بلکہ سفر میں بھی اپنے معمولات کا خیال رکھتے تھے۔
آپ کے سات خلفاُ ہیں ان میں آپ کے جانشین فرزند ارجمند حضرت پیر محمد امین الحسنات شاہ بھی شامل ہیں جو جامعہ القراُی سعودی عرب سے اسلامی قانون میں اعلی تعلیم کے حامل ہیں اور حضرت پیر محمد کرم شاہ کے اعلی و ارفع مشن کے لئے رات دن مصروف عمل نظر آتے ہیں آپ مذہبی امور کے وفاقی وزیر مملیکت رئیے اور اپنے بھائی پیر محمد محسن شاہ کو پنجاب اسمبلی کا رکن منتخب کرایا آپ کے ایک بھائی صاحبزادہ فاروق بہاوالحق شاہ نے عالمی تنظیم مسلم گلوبل ریلیف قائم کی ہے اور اس کے لئے کوششوں میں مصروف ہیں ایک بھائی صاحبزادہ ابوالحسن محمد شاہ نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے۔ بھائی پیر محمد حفیظ البرکات شاہ ضیاُالقران پبلیکیشنز لاہور کے انچارج ہیں جبکہ بھائی میجر محمد ابراہیم شاہ انگریزی ادب اور اسلامی لٹریچر کے ماہر ہیں ۔
حضرت پیر محمد امین الحسنات شاہ کی کوششوں سے گذشتہ حکومت نے ان کی چارٹر یونیورسٹی الکرم انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ کی منظوری دی ہے جو بھیرہ شریف اور دین و دنیا کے علم کے حصول کی حقیقی جستجو کرنے والوں کے لئے بہت بڑا تحفہ ہے پیر صاحب نے عرس کی تقریب میں صاحبزادہ محمد نعیم الدین شاہ کو اپنا جانشین ولی عہد مقرر کیا جن کی تاج پوشی کی گی۔
مجھے اپنے پیر و مرشد حضور
ضیاُالامت حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمتہ اللہ علیہ کے پچیس ویں عرس مبارک میں جانے کا موقع ملا ایک خالصتاُ روحانی اختتامی نشست تھی جس سے پروفیسر احمد ندیم رانجھا، صاحزادہ سلطان فتح محمد، بریگیڈر اختر نواز جنجوعہ اور سجادہ نشین حضرت پیر امین آلحسنات شاہ کے صدارتی ارشادات سننے کا موقع ملااور اس بات پر فخر ہوا کہ کچھ ہی سالوں میں پیر امین الحسنات شاہ سجادہ نشین نے بڑی تبدیلیاں لائی ہیں اور الکرم فرینڈز کے نام سے متحرک تنظیم بھی قائم کی ہے جو درگاہ سے وابستگان کو مربوط کرنے اور ان کی تعلیمات کو اجاگر کرنے میں بھرپور کردار ادا کر رہئی ہے نیز یونیورسٹی کی کئی بڑی عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں اور بھرپور تعلیمی مراحل جاری و ساری ہیں۔